پانچ ستمبر 1986: جب فلسطینی عسکری تنظیم نے کراچی ایئرپورٹ پر ایک جہاز کو ہائی جیک کیا

17:255/09/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

آج سے 39 سال قبل پاکستان کے شہر کراچی میں جہاز کی ہائی جیکنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم ملوث تھی۔ اس ہائی جیکنگ کی کہانی پڑھیے اس رپورٹ میں۔

پانچ اکتوبر 1986 کی صبح سویرے چھ بجے کا وقت تھا۔ کراچی ایئرپورٹ پر ایک بوئنگ 747 مسافر طیارہ موجود تھا جس میں مسافر سوار ہو رہے تھے۔

یہ امریکی ایئرلائن ’پان ایم‘ کی پرواز فلائٹ 73 تھی جو ممبئی سے نیو یارک جا رہی تھی۔ لیکن اسے کراچی اور فرینکفرٹ میں رکتے ہوئے جانا تھا۔

جہاز میں موجود مسافروں کو معلوم نہیں تھا کہ جہاز کراچی ایئرپورٹ سے پرواز نہیں کرے گا بلکہ کچھ ایسا ہوگا جسے وہ زندگی بھر بھول نہیں پائیں گے۔

ایک گاڑی ایئرپورٹ کے اندر جہاز کے قریب آئی۔ اس میں چار افراد سوار تھے جو بھاری اسلحے سے لیس تھے۔ انہوں نے ایئرپورٹ سیکیورٹی کے یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

یہ چاروں مسلح افراد جہاز کے قریب پہنچتے ہی پھرتی سے گاڑی سے اترے اور جہاز میں چڑھ گئے اور آناً فاناً فائرنگ شروع کر دی۔

جہاز میں موجود تمام مسافروں اور عملے کو پل بھر میں پتا چل گیا کہ جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے اور اب وہ ان چار افراد کے رحم و کرم پر ہیں۔ جہاز میں 379 مسافر اور 14فلائٹ اٹینڈنٹس موجود تھے۔

اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک فلائٹ اٹینڈنٹ نے چپکے سے کاک پٹ میں موجود پائلٹس کو ایمرجنسی کال کر دی اور انہیں بتا دیا کہ جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے۔

ہائی جیکرز کون تھے؟

یہ مسلح ہائی جیکرز ایک فلسطینی عسکری تنظیم ابو نضال آرگنائزیشن سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تنظیم 1970 اور 1980 کی دہائی میں کئی حملوں کی ذمہ دار تھی جن میں سیکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان ہائی جیکرز کے لیڈر تھے زید حسن صفارینی۔ ان کے علاوہ باقی تین ہائی جیکرز ولید، اسماعیل اور عبداللہ تھے اور ان تمام کی عمریں 19 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔

چاروں ہائی جیکرز بحرین کے جعلی پاسپورٹس پر لبنان سے پاکستان آئے تھے۔ ان کا تعلق شام، فلسطین اور بحرین سے تھا۔

کاک پٹ خالی

سن شائن ویسوالا اس جہاز میں ایک فلائٹ اٹینڈنٹ تھیں۔ ایک ہائی جیکر نے ان پر بندوق تان لی اور انہیں کپتان کے پاس چلنے کا حکم دیا۔ وہ اسے کاک پٹ میں لے گئیں لیکن وہاں کا منظر دونوں کے لیے حیران کن تھا کیوں کہ کاک پٹ خالی تھا۔

سن شائن نے فوراً نوٹ کیا کہ کاک پٹ میں موجود ایمرجنسی ڈیوائسز استعمال ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کاک پٹ کا ہنگامی انخلا کا دروازہ بھی کھلا نوٹ کر لیا جس سے ان پر واضح ہو گیا کہ پائلٹس جہاز سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن وہ ہائی جیکر کے سامنے انجان بننے کا ڈرامہ کرتی رہیں۔

سن شائن چاہتی تھی کہ اگر پائلٹس ابھی جہاز کے قریب ہیں تو انہیں بھاگنے کا وقت مل جائے۔ ہائی جیکر کو جہاز کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس پر توجہ نہیں دی۔

سن شائن نے 2016 بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’بہت سے لوگ پائلٹس پر تنقید کرتے تھے کہ وہ باقی عملے کو چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن مجھے سکون ملا جب میں نے دیکھا کہ وہ نکل گئے ہیں۔ کیوں کہ ہم سب زمین پر زیادہ محفوظ تھے بہ نسبت اس کے کہ جہاز فضا میں ہوتا۔ اور ویسے بھی کم از کم تین پائلٹس تو محفوظ تھے۔ تین زندگیاں بچ گئیں۔
جہاز کے عملے کی ایک تصویر

امریکی شہری کو گولی مار دی گئی

ہائی جیکرز کا منصوبہ تھا کہ پائلٹ کو مجبور کیا جائے کہ وہ جہاز کو قبرص اور اسرائیل لے کر جائیں جہاں ان کے گروہ کے دیگر ساتھی دہشت گردی کے الزامات میں قید تھے۔ لیکن جب کاک پٹ میں پائلٹ نہ ملے تو انہوں نے گراؤنڈ پر موجود عملے سے رابطہ شروع کیا۔

باہر پین ایم کے کراچی کے ڈائریکٹر ویراف ڈوروگا نے میگا فون کے ذریعے ہائی جیکرز سے مذاکرات شروع کیے۔ انہوں نے ان چاروں مسلح افراد کو بتایا کہ ایئرپورٹ حکام اُنہیں وہاں لے جانے کے لیے پائلٹس تلاش کر رہے ہیں جہاں وہ جانا چاہتے ہیں۔

ہائی جیکرز نے جہاز میں ایک 29 سالہ امریکی مسافر راجیش کمار کو اس کی سیٹ سے اٹھایا اور جہاز کے کھلے دروازوں میں سے ایک کے سامنے بٹھا دیا اور اس کے سر پر بندوق تان دی گئی۔ جب کئی گھنٹوں بعد بھی کوئی پائلٹ نہ آیا تو کمار کو گولی مار کر لاش کو جہاز سے باہر پھینک دیا گیا۔

اس کے بعد ہائی جیکرز نے جہاز میں مزید امریکی شہریوں کی تلاش شروع کر دی لیکن یہاں کچھ فلائٹ اٹینڈنٹس نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے مسافروں کے پاسپورٹس اکٹھے کیے اور ان میں سے امریکی شہریوں کے پاسپورٹ چھپا دیے۔

جب کوئی امریکی نہ ملا تو ہائی جیکرز نے برطانوی شہری مائیک کو منتخب کیا۔ اسے فرش پر بٹھا دیا گیا اور دوسرے مسافروں کی طرح ہاتھ سر کے اوپر رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ مائیک کے بقول ایک زور دار لات کے سوا ان پر کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا گیا اور بعد کی افراتفری میں وہ بھی دوسروں کے ساتھ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس وقت تک ہائی جیکرز کو یقین تھا کہ کوئی پائلٹ ان کے لیے جہاز اڑانے آ جائے گا۔ ہائی جیکرز نے دھمکی دی کہ اگر پائلٹ نہ آیا تو ہر پندرہ منٹ بعد ایک مسافر کو گولی مار دی جائے گی۔

وقت گزرتا گیا اور گھنٹوں بعد بھی کوئی پائلٹ نہ پہنچا۔ اس دوران پائلٹس کے گراؤنڈ پر موجود عملے سے مذاکرات جاری تھے۔

اس دوران پاکستانی اور امریکی اعلیٰ حکام بھی ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں تھے اور آپریشن کی حکمتِ عملی ترتیب دی جا رہی تھی۔ سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پر موجود تھی اور آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

ہائی جیکرز نے جہاز کے دروازے بند اور کھڑکیوں کے شٹر نیچے کر دیے تھے مگر ایئر کنڈیشننگ اور روشنی چل رہی تھی۔ جیسے جیسے شام ڈھلتی گئی جہاز کی پاور ختم ہونے لگی۔ ہائی جیکنگ کے 16 گھنٹے بعد لائٹس بند ہونے لگیں اور اے سی بند ہو گئے۔ کچھ دیر بعد جہاز مکمل اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔

گولیوں کی بارش اور بھاگ دوڑ

جیسے ہی اندھیرا ہوا، تمام فلائٹ اٹینڈنٹس اور مسافر جہاز کے درمیان حصے میں جمع تھے۔ کئی لوگ فرش پر دروازوں اور راستوں کے قریب بیٹھے تھے۔ ہائی جیکرز نے اپنی پوزیشن دائیں اور بائیں جانب سنبھال لی۔

ان کا صبر جواب دے چکا تھا اچناک انہوں نے نعرہ لگایا اور جہاز میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فلائٹ اٹینڈنٹ سن شائن کے مطابق ’اندھیرے میں بجلی کی چمک کے ساتھ گولیاں چل رہی تھیں، اور ہر طرف چیخ و پکار تھی۔‘

افراتفری میں جہاز کے کم از کم تین دروازے کھول دیے گئے مگر یہ واضح نہیں کہ یہ کس نے کھولے۔ کچھ لوگوں نے جہاز کے پروں پر چھلانگیں لگائیں اور ان کھلے دروازوں سے جو جس طرح نکل سکتا تھا، اس نے نکلنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں کئی لوگ جہاز سے گر کر زخمی بھی ہوئے۔

ہائی جیکرز گرفتار

کچھ دیر بعد فائرنگ رک گئی۔ اسی افراتفری کے دوران تین ہائی جیکرز بھی جہاز سے نکل گئے اور ایئرپورٹ سے فرار ہونے کی کوشش میں تھے لیکن سیکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس وقت تک سیکیورٹی اہلکار بھی جہاز کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ انہوں نے جہاز میں داخل ہو کر کارروائی شروع کی اور ہائی جیکرز کے سربراہ صفارینی کو جہاز کے اندر سے مقابلے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔

چاروں ہائی جیکرز تو زندہ پکڑے گئے لیکن ان کی فائرنگ سے 22 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔

چاروں ہائی جیکرز پر پاکستان میں مقدمہ چلایا گیا جس میں انہیں سزائے موت دی گئی۔ لیکن بعد ازاں اسے عمر قید میں بدل دیا گیا۔

پاکستانی حکام نے ستمبر 2001 میں ہائی جیکرز کے سربراہ زید حسن عبد اللطیف صفارینی کو رہا کر دیا لیکن اسے جلد ہی امریکہ نے دوبارہ گرفتار کر لیا۔ صفارینی اس وقت امریکہ کی جیل میں 160 سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ باقی ہائی جیکرز کو 2008 میں پاکستانی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ حالاں کہ بھارت اور امریکہ دونوں ان کی رہائی کی مخالفت کر رہے تھے۔

پین ام کے عملے کو ان کی بہادری پر 1986 میں ایئرلائن نے، 2005 میں امریکی محکمہ انصاف نے اور 2006 میں امریکی اٹارنی جنرل نے اعزازات سے نوازا۔ نیّرجا بھنوٹ وہ واحد فلائٹ اٹینڈنٹ تھیں جنہیں بھارت اور پاکستان دونوں کی طرف سے بعد از مرگ بہادری کے ایوارڈ دیے گئے۔

(اس خبر میں شامل کچھ معلومات بی بی سی کی ایک رپورٹ سے لی گئی ہیں۔)
##پاکستان
##کراچی
##جہاز ہائی جیک