
انڈین حکومت کے زیرِ کنٹرول علاقے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور مقامی رہائشیوں کے لیے ملازمتوں میں مخصوص کوٹے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 4 لوگ ہلاک اور 30 پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 59 دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔
لداخ، جو بُدھ اور مسلم آبادی والا علاقہ ہے، سن 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے جموں و کشمیر سے الگ کر کے ایک علیحدہ وفاقی خطہ (یونیئن ٹیریٹری) بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی جو خودمختاری پہلے تھی وہ ختم کر دی گئی اور اب یہ براہِ راست نئی دہلی (یعنی انڈین مرکزی حکومت) کے زیرِ انتظام ہے، نہ کہ کسی اپنی منتخب ریاستی حکومت کے۔
مظاہرین کی قیادت سونم وانگچک کر رہے تھے، یہ مطالبہ کیا گیا کہ لداخ کو خصوصی درجہ دیا جائے۔ اس خاص درجے کے تحت وہاں ایسے منتخب مقامی ادارے قائم کیے جا سکیں جو لداخ کے قبائلی علاقوں اور ان کی ثقافت و وسائل کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
لیہ کی اے پیکس باڈی کے چیئرمین تھوپستان ٹسوانگ کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز ہونے والے تشدد میں 2 سے 3 نوجوان جان سے گئے جنہیں مقامی قیادت نے اپنے مقصد کے لیے شہید قرار دیا۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ ان نوجوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ان کے مطالبات منوانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جانیں تحریک کے لیے دی گئی ہیں اور عوام کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ان کا مشن آگے بڑھایا جائے گا۔
مودی کی بی جے پی کی لیہ شاخ کا دفتر بھی جلائے جانے والی عمارتوں میں شامل تھا۔
انڈین ٹی وی چینلز نے ایک خالی پولیس گاڑی دکھائی جس کے اگلے حصے سے شعلے جل رہے تھے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق احتجاجیوں پر آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جبکہ نوجوانوں نے پتھراؤ کیا۔
ایک پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ 50 سے زائد افراد، جن میں 20 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، زخمی ہوئے ہیں۔ ’یہ نوجوانوں کا غصہ تھا۔ جس نے انہیں سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں، اس راستے پر مت چلو‘۔
’یہ لداخ کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو دکھ اور تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں، تو ہم آج سے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر رہے ہیں۔‘