پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ مذاکرات کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق: وزیرِ دفاع

اقرا حسین
07:4620/10/2025, پیر
جنرل20/10/2025, پیر
ویب ڈیسک
پاک۔افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ہفتے کے روز افغان طالبان حکام سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچا۔
پاک۔افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ہفتے کے روز افغان طالبان حکام سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان فوری جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ دوحہ میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد کیا گیا، جہاں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے کا وعدہ کیا۔ دونوں فریقین 25 اکتوبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ معاملات پر مزید بات چیت کی جا سکے۔

پاک۔افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ہفتے کے روز افغان طالبان حکام سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچا۔ ان مذاکرات کا مقصد سرحد پار جھڑپوں کا خاتمہ اور پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو دور کرنا تھا۔ قطر کی سہولت کاری میں ہونے والے یہ مذاکرات کئی دنوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں اور پاکستان کی جانب سے افغانستان میں گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر کیے گئے حملوں کے بعد ہوئے، جب 48 گھنٹے کی جنگ بندی میں مذاکرات کے لیے توسیع کی گئی تھی۔


وزیر دفاع نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملے فوری طور پر بند ہوں گے۔ دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے وفود 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ معاملات پر تفصیلی بات چیت کی جا سکے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم دونوں برادر ممالک، قطر اور ترکی کے شکر گزار ہیں۔‘

وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’درست سمت میں ایک اہم قدم‘ قرار دیا۔

ایکس پر اپنے بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ’میں دوحہ میں گزشتہ رات طے پانے والے معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم برادر ممالک قطر اور ترکی کے تعمیری کردار کے بے حد مشکور ہیں۔‘


اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی کہ آنے والے استنبول اجلاس میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ’ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی کا نظام‘ قائم کیا جائے گا، تاکہ ’افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی‘ پر قابو پایا جا سکے۔

انہوں نے زور دیا کہ ’مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے تمام کوششوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔‘


افغان طالبان حکومت کا ردعمل

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ’اسلامی امارتِ افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات باہمی معاہدے کے دستخط کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’معاہدے کی شرائط کے تحت دونوں فریقین نے امن، باہمی احترام اور مضبوط و تعمیری ہمسائیگی کے تعلقات کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔‘

بیان کے مطابق دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ’نہ تو کوئی ملک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی جارحانہ کارروائی کرے گا اور نہ ہی ایسے گروہوں کی حمایت کرے گا جو پاکستان کی حکومت کے خلاف حملوں میں ملوث ہوں۔‘

مزید کہا گیا کہ ’دونوں فریقین ایک دوسرے کی سیکیورٹی فورسز، شہریوں یا اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں گے۔‘

سفارت کاری کے عزم کو اجاگر کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ ’دونوں فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ تمام معاملات اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا اور واضح کیا گیا کہ ’ایک جامع اور بامعنی جنگ بندی پر باہمی اتفاق ہو چکا ہے۔‘


مزید کہا گیا کہ ’آئندہ، ثالثی کرنے والے ممالک کی نگرانی میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے گا جو دوطرفہ دعوؤں کا جائزہ لے گا اور اس معاہدے پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔‘

ترجمان نے معاہدے کی سہولت کاری میں کردار ادا کرنے پر قطر اور ترکی کا شکریہ بھی ادا کیا۔

بعد ازاں ایک اور پوسٹ میں ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے پچھلے بیان میں شامل جملے ’نہ ہی وہ گروہوں کی حمایت کریں گے جو پاکستان کی حکومت کے خلاف حملے کرتے ہیں‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی امارت کا مستقل مؤقف رہا ہے کہ ’افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسلامی امارت کسی کے خلاف کسی بھی حملے کی حمایت نہیں کرتی اور ہمیشہ اسی مؤقف پر زور دیتی آئی ہے۔‘



قطر کا ردعمل، ’سرحد‘ کا لفظ حذف


دوسری جانب قطر کی وزارتِ خارجہ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جو بیان جاری کیا، اُس میں واضح طور پر کہا گیا کہ جنگ بندی کا یہ قدم پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر کشیدگی کم کرنے اور خطے میں پائیدار امن قائم کرنے میں مدد دے گا۔

لیکن جب یہی بیان قطر کی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تو اس میں سے ’سرحد‘ کا لفظ نکال دیا گیا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے دونوں بیانات میں اس فرق پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔


بہت سے مبصرین نے بیان میں ’سرحد‘ کے لفظ کے حذف کیے جانے کو افغان طالبان کی سفارتی کامیابی قرار دیا ہے، کیونکہ طالبان طویل عرصے سے ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان باضابطہ سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔

’دی خراسان ڈائری‘ سے منسلک صحافی افتحار فردوس کہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے بعد افغان طالبان قیادت کی جانب سے دیے جانے والے بیانات جارحانہ ہیں۔

’ایکس‘ پر اُن کا کہنا تھا کہ ’ڈیورنڈ لائن‘ کے معاملے پر بات کرنا ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

اُن کے بقول ’ایسا لگتا ہے کہ معاملات کو حل کرنے سے متعلق پاکستان کے سفارتی اقدامات نے بہت کم کام کیا ہے۔ لہذا حالات یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان ایک اور تنازع کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے جس سے وہ بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

ہفتے کے روز جب دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات جاری تھے، پاکستان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔ تاہم دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان حکام پر زور دیا کہ وہ عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور پاکستان کے جائز سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کریں۔





#افغانستان
#پاکستان
##سرحدی جھڑپیں