’آئرن لیڈی‘ سانائے تاکائچی: ٹی وی میزبان، ڈرمر اور قدامت پسند خیالات رکھنے والی جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم کون ہیں؟

اقرا حسین
07:4421/10/2025, منگل
جنرل21/10/2025, منگل
ویب ڈیسک
سیاست میں آنے سے قبل، تاکائچی کچھ عرصے تک ٹی وی میزبان کے طور پر کام کرتی رہیں۔
تصویر : ایجنسی / روئٹرز
سیاست میں آنے سے قبل، تاکائچی کچھ عرصے تک ٹی وی میزبان کے طور پر کام کرتی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جب تک جاپان اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتا، اس کی قسمت ہمیشہ امریکا کی سطحی رائے کے رحم و کرم پر رہے گی۔‘

سانائے تاکائچی جاپان کی ایک خاتون سیاستدان ہیں جو ماضی میں سرکاری وزیر اور ٹی وی میزبان رہ چکی ہیں۔

اب وہ نہ صرف ایک ایسی جماعت کی قیادت سنبھالیں گی جو اسکینڈلز کے بعد عوامی اعتماد بحال کرنے اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے نمٹنے کے چیلنج سے دوچار ہے، بلکہ ایک ایسے ملک کی بھی قیادت کریں گی جو کم شرحِ پیدائش اور بڑھتی ہوئی جغرافیائی کشیدگیوں کا سامنا کر رہا ہے۔

1961 میں نارا پریفیکچر میں پیدا ہونے والی سانائے تاکائچی کے والد ایک دفتری ملازم اور والدہ پولیس افسر تھیں، اس لیے سیاست ان کے خاندانی پس منظر سے خاصی دور تھی۔

ڈرمر اور کار ریسنگ کی شوقین

وہ پہلے ایک ہیوی میٹل بینڈ (راک میوزک گروپ) میں ڈرم بجاتی تھیں۔ انہیں ڈرم بجانے کا بہت شوق تھا اور وہ اتنی زور سے ڈرم بچاتیں کہ ان کی ڈرم اسٹکس اکثر ٹوٹ جاتی تھیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اضافی اسٹکس اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔

وہ اسکوبا ڈائیونگ اور کار ریسنگ کی بھی شوقین تھیں۔ ان کی پسندیدہ گاڑی ٹوئیوٹا سپرا اِس وقت نارا کے ایک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔

سیاست میں آنے سے قبل، تاکائچی کچھ عرصے تک ٹی وی میزبان کے طور پر کام کرتی رہیں۔


’جب تک جاپان خود اپنی حفاظت نہیں کرے گا، اس کی قسمت امریکا کے رحم و کرم پر رہے گی‘

انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ 1980 کی دہائی میں کیا جب امریکا اور جاپان کے درمیان تجارتی کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔

امریکیوں کے جاپان سے متعلق خیالات کو سمجھنے کے لیے، انہوں نے امریکی کانگریس کی رکن اور جاپان پر تنقید کرنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما پیٹریشیا شروئیڈر کے دفتر میں کام کیا۔

اس دوران تاکائچی نے دیکھا کہ امریکی اکثر جاپانی، چینی اور کوریائی زبانوں اور کھانوں میں فرق نہیں کرتے اور جاپان کو اکثر چائنہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ ایک ہی زمرے میں رکھتے ہیں۔

اس تجربے سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’جب تک جاپان خود اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہوگا، اس کا مستقبل ہمیشہ امریکا کی رائے اور فیصلوں پر منحصر رہے گا۔‘

انہوں نے 1992 میں پہلی بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمانی انتخاب لڑا لیکن ہار گئیں۔

تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری، ایک سال بعد نشست جیت لی اور 1996 میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) میں شامل ہو گئیں۔ تب سے اب تک وہ 10 بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکی ہیں، صرف ایک بار ہاری ہیں اور پارٹی میں قدامت پسند نظریات کی ایک نمایاں آواز سمجھی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومت میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں وزیرِ اقتصادی سلامتی، وزیرِ مملکت برائے تجارت و صنعت اور وزیرِ داخلہ و مواصلات کے طور پر ذمہ داریاں نبھانا شامل ہے۔

2021 میں تاکائچی نے پہلی بار ایل ڈی پی (لبرل ڈیموکریٹک پارٹی) کی قیادت کے لیے انتخاب لڑا، مگر فومیو کشیدا کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔ انہوں نے 2024 میں دوبارہ کوشش کی، اس بار پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، مگر آخرکار شیگیرو ایشیبا سے ہار گئیں۔

اس سال، تیسری کوشش میں وہ کامیاب ہوئیں اور پارلیمنٹ سے توثیق کے بعد جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔

اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ایک اسکول کے بچوں سے کہا کہ ’میرا گول 'آئرن لیڈی' بننا ہے۔‘

قدامت پسند نظریات: ’شادی کے بعد عورت کو اپنے شوہر کا خاندانی نام رکھنا چاہیے‘

تاکائچی ایک روایتی نظریات رکھنے والی قدامت پسند سیاست دان ہیں، یعنی وہ پرانی سماجی روایات اور اقدار کو برقرار رکھنے پر یقین رکھتی ہیں۔

اُن کا خیال ہے کہ شادی کے بعد عورت کو اپنے شوہر کا خاندانی نام رکھنا چاہیے، کیونکہ جاپان میں یہ روایت سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اگر عورت اپنا پہلا نام برقرار رکھتی ہے تو یہ روایتی خاندانی نظام کے خلاف ہے۔

اسی طرح وہ ہم جنس شادی کی بھی مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نظریات کے مطابق یہ عمل سماجی و مذہبی روایات کے منافی ہے۔

تاہم حالیہ دنوں میں ان کے لہجے میں نرمی آئی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے وعدہ کیا کہ بے بی سِٹر فیسز کو جزوی طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جائے گا اور ایسی کمپنیوں کے لیے ٹیکس میں رعایت دی جائے گی جو اپنے ملازمین کے لیے ان ہاؤس (دفتر کے اندر) بچوں کی دیکھ بھال کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔

ان کی خاندانی اور ذاتی زندگی کے تجربات ان کی پالیسیوں کی بنیاد ہیں، انہوں نے خواتین کی صحت کے لیے ہسپتالوں کی سہولیات بڑھانے، گھریلو کام کرنے والے ورکرز کو بہتر حیثیت دینے، اور بوڑھی ہوتی آبادی کے لیے نگہداشت کے نظام کو بہتر بنانے کی تجویز دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں اپنی زندگی میں تین بار نرسنگ اور نگہداشت کے مراحل سے گزر چکی ہوں۔ اسی لیے میرا عزم مزید مضبوط ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کم کی جائے جنہیں نگہداشت، بچوں کی پرورش یا تعلیمی مسائل کی وجہ سے اپنی ملازمت چھوڑنی پڑتی ہے۔ میں ایسا معاشرہ بنانا چاہتی ہوں جہاں کسی کو اپنا کیریئر نہ چھوڑنا پڑے‘۔

تاکائچی، سابق وزیرِاعظم شِنزو آبے کی شاگرد اور ان کے ’آبے نومکس‘ اقتصادی وژن (جس میں زیادہ سرکاری اخراجات اور سستے قرضے شامل ہیں) کو دوبارہ بحال کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

انہوں نے جاپان کے آئینی دفاعی قوانین میں نرمی کی بھی حمایت کی ہے تاکہ ملک کی سیلف ڈیفنس فورسز کو حملہ آور صلاحیتیں رکھنے کی اجازت دی جا سکے۔

چیلنجز

1955 میں وجود میں آنے والی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے جاپانی سیاست پر طویل عرصے تک غلبہ برقرار رکھا، لیکن اب یہ جماعت معاشی سست روی، آبادی میں کمی اور سماجی بے اطمینانی کے باعث اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔

تاکائچی ایل ڈی پی کے دائیں بازو دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے انتخاب کے ذریعے پارٹی کو امید ہے کہ وہ اُن قدامت پسند ووٹروں کو واپس حاصل کر سکے گی جو حال ہی میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت سانسیتو کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔

تاکائچی نے پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہمیں خاص طور پر اپنے حامیوں، قدامت پسندوں اور پارٹی اراکین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایل ڈی پی کو جاپان کے حال اور مستقبل کے لیے بدلنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ قومی مفاد کو اولین ترجیح دیں گے اور ملک کو توازن کے ساتھ چلائیں گے۔‘

پارلیمنٹ کی جانب سے 15 اکتوبر کو انہیں وزیرِاعظم کے طور پر حتمی منظوری دی جانے کی توقع ہے۔








#جاپان
#پہلی خاتون وزیراعظم
#سیاست