
ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں تہران کے نیوکلئیر پروگرام پر بات چیت کا پہلا دور ختم ہوگیا۔ دونوں ممالک کے درمیان 2018 کے بعد یہ اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔
’خبر رساں ادارے بی بی سی یوکے‘ کے مطابق ایران اور امریکہ نے اس ملاقات کو مثبت اور فائدہ مند قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ بات چیت کو آگے بڑھایا جا سکے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران سے براہِ راست بات چیت کرنا بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ایک ممکنہ معاہدے تک پہنچنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا اور معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کردی تھیں، جس سے ایران ناراض تھا۔امریکی صدر نے مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ ٹرمپ طویل عرصے سے وہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ اس سے ’بہتر‘ معاہدہ کریں گے۔
حالیہ مذاکرات کو اس بیان کا پہلا اہم قدم سمجھا جا رہا ہے کہ آیا نیا معاہدہ ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں۔
ایران اور امریکی حکام کے درمیان بالواسطہ پہلے مذاکرات ڈھائی گھنٹے تک جاری رہے۔
جب ایران اور امریکہ کے حکام عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے (جہاں عمان کے اعلیٰ سفارت کار نے ان کے درمیان ہونے والے زیادہ تر بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا) تو اس ملاقات کا جو نتیجہ نکلا، اسے موجودہ حالات کے تناظر میں بہترین ممکنہ نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ مذاکرات 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے بعد سے سب سے اہم بات چیت قرار دی جا رہی ہے۔
ایران کے مرکزی مذاکرات کار وزیر خارجہ عباس عراقچی کا ردعمل بھی مثبت تھا۔ انہوں نے ایرانی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں بطور پہلی ملاقات یہ ایک تعمیری ملاقات تھی جو بہت پُرامن اور باعزت ماحول میں ہوئی، کیونکہ کسی نے نامناسب زبان استعمال نہیں کی۔‘
ان کا سفارتی لہجہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ امریکی ٹیم، جس کی قیادت صدر ٹرمپ کے نمائندے اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے، نے صدر کے ان دھمکی آمیز بیانات کو نہیں دہرایا جن میں ایران کو ’سنگین نتائج‘ کی تنبیہ کی گئی تھی اگر یہ بات چیت ناکام ہوئی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ بارہا ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔
یہ ملاقات بالواسطہ طریقے سے ہوئی دونوں وفود الگ الگ کمروں میں موجود تھے اور پیغامات کا تبادلہ عمان کے وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسعیدی کے ذریعے کیا گیا۔
مذاکرات کے بعد جاری کردہ بیان میں وائٹ ہاؤس نے اس بات چیت کو ’انتہائی مثبت اور تعمیری‘ قرار دیا، اور کہا کہ وٹکوف نے ایران کو بتایا کہ ان کے پاس یہ ہدایات ہیں کہ اگر ممکن ہو تو دشمنیاں بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے ختم کی جائیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ معاملات بہت پیچیدہ ہیں اور آج خصوصی ایلچی وٹکوف کا براہِ راست رابطہ ایک ایسا قدم ہے جو دونوں فریقین کے لیے فائدہ مند نتیجے کی طرف لے جا سکتا ہے۔‘
عراقچی نے مذاکرات سے قبل کہا تھا کہ ان کا ملک ’منصفانہ معاہدہ‘ چاہتا ہے۔
مذاکرات کے اختتام پر انہوں نے بتایا کہ اگلے ہفتے کی بات چیت میں ممکن ہے کہ عمان نہ ہو، لیکن ثالثی کا کردار اب بھی عمان ہی ادا کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اگلا اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا۔
عراقچی نے ایرانی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ’نہ ہم اور نہ ہی دوسرا فریق بے مقصد مذاکرات چاہتا ہے، وقت ضائع کرنے یا کبھی نہ ختم ہونے والے مذاکرات نہیں ہونے چاہییں۔‘
ایران اور امریکہ کیا چاہتا ہے؟
سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ دونوں فریق کس نوعیت کا معاہدہ قبول کرنے پر آمادہ ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے ایران کے سپریم لیڈر کو ایک خط بھیجا، جس میں کہا گیا کہ وہ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکے اور امریکہ اور اسرائیل کی ممکنہ فوجی کارروائیوں سے بچاؤ کا ذریعہ بنے۔
ایران کو امید ہے کہ ایسا معاہدہ ہو جس کے تحت اس کا جوہری پروگرام محدود کیا جائے، لیکن مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے اور اس کے بدلے میں پابندیوں میں نرمی کی جائے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو عمان میں ایک نامعلوم ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کا مقصد خطے میں کشیدگی کم کرنا اور قیدیوں کا تبادلہ یقینی بنانا بھی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بات چیت اس وقت ظاہر کی جب پیر کے روز اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔ نیتن یاہو نے منگل کو کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جائیں گے۔