
’خبر رساں ادارے بی بی سی یوکے‘ کے مطابق امریکہ اور ایران کے حکام نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں متنازع جوہری پروگرام پر نیا معاہدہ کرنے کی کوشش کے لیے بالواسطہ مذاکرات کیے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا اور ایران پر معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کردی تھیں، جس سے ایران ناراض تھا۔
امریکی صدر نے مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار کیوں نہیں بنانے دے رہا؟
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا، لیکن کئی ممالک اور عالمی جوہری نگراں ادارہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی بھی اس پر قائل نہیں ہیں۔
ایران کے ارادوں پر شک اس وقت پیدا ہوا جب 2002 میں ایران کے خفیہ جوہری پلانٹس کا پتا چلا۔
جو نیوکلئیر نان-پرولیفریشن ٹریٹی کی خلاف ورزی تھی، جس پر ایران اور تقریباً تمام دیگر ممالک دستخط کر چکے ہیں۔
نان-پرولیفریشن ٹریٹی پر دستخط کرنے والے ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت ہے جیسے کہ طب، زراعت، اور توانائی کے لیے مگر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی اجازت نہیں ہے۔
امریکہ ایران کو جوہری پروگرام بنانے سے روکنے کی کوشش اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایران اس پروگرام کو پرامن مقاصد کے بجائے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس مسئلے کی چند بڑی وجوہات یہ ہوسکتی ہیں:
1۔ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی (خاص طور پر اسرائیل) نہیں چاہتے کہ ایران ایک ایٹمی طاقت بنے، کیونکہ اس سے ایران کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اور علاقائی کشیدگیاں شدت اختیار کر سکتی ہیں۔
2۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا خطرہ: اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو ممکن ہے کہ دوسرے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک (جیسے سعودی عرب، ترکی یا مصر) بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کریں، جس سے پوری دنیا میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے۔
3۔اسرائیل کے تحفظ کا مسئلہ: امریکہ کا قریبی اتحادی اسرائیل ایران کو ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران کی حکومت بارہا اسرائیل کے خلاف سخت بیانات دیتی رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا چاہتا ہے۔
4۔2002 سے جاری خدشات اور معاہدے: 2002 میں ایران کے خفیہ جوہری تنصیبات سامنے آئیں تو عالمی سطح پر تشویش پیدا ہوئی۔ 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں (جن میں امریکہ بھی شامل تھا) کے درمیان جوانئٹ کمریہنسیو پلان آف ایکشن نامی معاہدہ طے پایا، جس کے تحت ایران نے کچھ پابندیوں کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم 2018 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
5۔ عالمی سلامتی کا مسئلہ: امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنا لیتا ہے تو یہ ہتھیار دہشت گرد گروہوں یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں بھی جا سکتے ہیں، جو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ایران کا جوہری پروگرام کتنا ایڈوانس ہے؟
جب امریکہ نے 2018 میں موجودہ جوہری معاہدے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن سے علیحدگی اختیار کی، تو ایران نے اس معاہدے کی اہم شرائط کی خلاف ورزی کی ہے جو امریکہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں کا ردعمل تھا۔
ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو مزید ترقی دینے کے لیے یورینیم کی افزودگی (یعنی یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے قابل بنانے کے لیے اسے زیادہ طاقتور بنانا) کے لیے ہزاروں جدید سینٹرفیوجز (جو یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والی مشینیں ہیں) نصب کیں۔ تاہم جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن معاہدے کے تحت ایران کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
جوہری ہتھیاروں کے لیے وہ یورینیم درکار ہوتا ہے جسے 90 فیصد تک افزود (یعنی اضافہ) کیا گیا ہو۔ جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکشن کے تحت ایران کو صرف 300 کلوگرام (600 پاؤنڈ) یورینیم 3.67 فیصد بڑھانے کی اجازت تھی، جو کہ پُرامن جوہری توانائی اور تحقیق کے مقاصد کے لیے کافی تھی، مگر جوہری بم بنانے کے لیے نہیں۔
تاہم مارچ 2025 تک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا کہ ایران کے پاس تقریباً 275 کلوگرام یورینیم ہے جسے اس نے 60 فیصد بڑھادیا تھا۔ اگر ایران اسے مزید بڑھائے تو خیال کیا جارہا ہے کہ یہ مقدار تقریباً چھ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران اس یورینیم کو ایک بم کے لیے جوہری مواد میں تبدیل کر سکتا ہے اور یہ عمل ایک ہفتے میں مکمل ہو سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں ایک سال سے اٹھارہ ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران ایک سادہ یا ابتدائی نوعیت کا جوہری آلہ چھ ماہ یا اس سے کم وقت میں بنا سکتا ہے۔
کیا امریکہ اور اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتے ہیں؟
امریکہ اور اسرائیل دونوں کے پاس ایران کے جوہری انفراسٹرکچر پر بمباری کرنے کی عسکری صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن ایسی کارروائی پیچیدہ اور خطرناک ہو سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ غیر متوقع ہو سکتا ہے۔
ایران کے جوہری مقامات بنکرز میں دفون ہیں اور یہ اتنی گہرائی میں ہیں کہ انہیں صرف سب سے طاقتور بنکر بسٹنگ بم کے ذریعے ہی تباہ کیا جا سکتا ہے۔ (یعنی وہ بم جو خاص طور پر پناہ گاہوں کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں)
امریکہ کے پاس ایسے طاقتور بم ہیں جو ان گہرے بنکرز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اسرائیل کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ آیا ان کے پاس بھی ایسے بم موجود ہیں یا نہیں۔
اگر امریکہ اور اسرائیل حملہ کریں تو ایران ممکنہ طور پر اپنے دفاع میں ردعمل دے گا، جس میں امریکہ کے اثاثوں پر حملہ کرنا اور اسرائیل پر میزائل داغنا شامل ہو سکتا ہے۔
اس نوعیت کی کارروائی کے لیے امریکہ کو ممکنہ طور پر خلیج میں اپنے فوجی اڈوں اور ایئرکرافٹ کیریئرز کا استعمال کرنا پڑے گا۔
لیکن قطر جیسے ممالک، جو سب سے بڑے امریکی فضائی اڈے کی میزبانی کرتے ہیں، شاید ایران پر حملہ کرنے کے لیے امریکہ کی مدد کرنے پر راضی نہ ہوں، کیونکہ انہیں جوابی حملوں کا خوف ہو سکتا ہے۔