
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں پولیس نے شامی شہید علاقے میں ایک گھر کو مبینہ طور پر عبادت گاہ میں تبدیل کرنے پر احمدیہ جماعت کے 42 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ندیم اختر تبسم کے حکم پر درج کیا گیا، جو کرمنل کروسیجر کوڈ کی دفعات 22-اے اور 22-بی کے تحت دائر ایک درخواست پر جاری کیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے مطابق احمدی برادری کے افراد اس گھر کو، جسے انہوں نے ’دارالذکر‘ کا نام دیا، باقاعدہ نمازِ جمعہ سمیت دیگر نمازیں اور عید کی نماز ادا کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ احمدیوں کو اس کی کوئی قانونی اجازت حاصل نہیں تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں احمدیوں پر حملے اور مقدمات درج ہونا نئی بات نہیں ہے، ایسا طویل عرصے سے چلا آرہا ہے۔ 1974 میں پاکستان کے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق احمدی، خاص طور پر ختمِ نبوت کے عقیدے کے حوالے سے، اسلام کے بنیادی عقائد پر پورا نہیں اترتے۔پھر اس کے تقریباً دس سال بعد جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں 1984 میں ایک آرڈیننس جاری ہوا، جس سے احمدیوں پر مزید پابندیاں لگا دی گئیں۔
اس آرڈیننس کے تحت اگر کوئی احمدی خود کو مسلمان کہے، ’اسلام علیکم‘ یا ’بسم اللہ‘ جیسے الفاظ استعمال کرے یا اپنی عبادت گاہ کو ’مسجد‘ کہے یا وہاں اذان دے، تو اسے تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ان قوانین کی وجہ سے احمدیوں کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے، اور اُن کے خلاف کئی مقدمات بھی درج کیے جاتے ہیں۔
تاہم پاکستان کا آئین یہ بھی کہتا ہے کہ کسی کو مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنانا جرم ہے۔