قصور: ’نماز پڑھنے پر‘ 42 احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج

08:0714/04/2025, Pazartesi
جنرل14/04/2025, Pazartesi
ویب ڈیسک
1974 میں پاکستان کے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا
تصویر : ایکس / فائل
1974 میں پاکستان کے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں پولیس نے شامی شہید علاقے میں ایک گھر کو مبینہ طور پر عبادت گاہ میں تبدیل کرنے پر احمدیہ جماعت کے 42 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

انگریزی اخبار
کے مطابق یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298(سی) کے تحت درج کیا گیا ہے، جو احمدیوں کو خود کو مسلمان ظاہر کرنے یا اسلامی عبادات ادا کرنے سے روکتا ہے۔

مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ندیم اختر تبسم کے حکم پر درج کیا گیا، جو کرمنل کروسیجر کوڈ کی دفعات 22-اے اور 22-بی کے تحت دائر ایک درخواست پر جاری کیا گیا تھا۔

درخواست گزار کے مطابق احمدی برادری کے افراد اس گھر کو، جسے انہوں نے ’دارالذکر‘ کا نام دیا، باقاعدہ نمازِ جمعہ سمیت دیگر نمازیں اور عید کی نماز ادا کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ احمدیوں کو اس کی کوئی قانونی اجازت حاصل نہیں تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں احمدیوں پر حملے اور مقدمات درج ہونا نئی بات نہیں ہے، ایسا طویل عرصے سے چلا آرہا ہے۔ 1974 میں پاکستان کے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق احمدی، خاص طور پر ختمِ نبوت کے عقیدے کے حوالے سے، اسلام کے بنیادی عقائد پر پورا نہیں اترتے۔پھر اس کے تقریباً دس سال بعد جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں 1984 میں ایک آرڈیننس جاری ہوا، جس سے احمدیوں پر مزید پابندیاں لگا دی گئیں۔

اس آرڈیننس کے تحت اگر کوئی احمدی خود کو مسلمان کہے، ’اسلام علیکم‘ یا ’بسم اللہ‘ جیسے الفاظ استعمال کرے یا اپنی عبادت گاہ کو ’مسجد‘ کہے یا وہاں اذان دے، تو اسے تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ان قوانین کی وجہ سے احمدیوں کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے، اور اُن کے خلاف کئی مقدمات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

تاہم پاکستان کا آئین یہ بھی کہتا ہے کہ کسی کو مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنانا جرم ہے۔



یہ بھی پڑھیں:



#احمدی برادری
#پاکستان
#قصور
#پاکستان پینل کوڈ