
ایک ماہ سے طورخم بارڈر بند ہونے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو مجموعی طور پر اربوں کا نقصان ہوا ہے۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے 16 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان کی مارکیٹ کا 65 فیصد سے زیادہ حصہ کھو دیا ہے۔ اب افغانستان زیادہ تر چیزیں ایران، کچھ وسطی ایشیائی ممالک، ترکی اور یہاں تک کہ انڈیا سے خرید رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ غیر یقینی صورتحال نے خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی مقامی صنعتوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ سرحد بند ہونے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں روزمرہ استعمال کی سینکڑوں اشیاء کی پیداوار پر بھی بڑا اثر پڑا۔
ایک تاجر نے ڈان کو بتایا کہ اس وقت افغانستان سیمینٹ، کپڑے، جوتے اور چپلیں، مختلف سبزیاں، تازہ پھل، مچھلی، مرغی اور دیگر پولٹری کی اشیاء، جانوروں کا چارہ اور مٹھائیاں درآمد کر رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سرحد کے طویل عرصے تک بند رہنے کی وجہ سے آلو اور کیلے کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں اور اگر سرحدی تنازعات کو جلد حل نہ کیا گیا تو کینو کی برآمدات بھی کم ہو جائیں گی۔
کلیئرنگ ایجنٹ قاری نظام گل نے ڈان کو بتایا کہ سرحدی تنازعات سے پہلے ہی کابل اور جلال آباد کی مارکیٹیں ایرانی، ترکیہ اور وسطی ایشیائی مصنوعات سے بھری ہوئی تھیں، اور ایران نے افغانستان کو اپنی برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ حاصل کر لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ افغان تاجروں کو ایران کے ساتھ کاروبار کرنا زیادہ آسان اور آرام دہ لگتا تھا کیونکہ ایران ویزا اور کسٹم ڈیوٹی میں زیادہ سہولیات فراہم کر رہا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم 2012 سے 2016 کے دوران 2.5 ارب ڈالر تھا، جو اب صرف 800 سے 900 ملین ڈالر سالانہ رہ گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ وقت گئے جب روزانہ 1000 سے 1200 شپنگ کنٹینرز مختلف برآمدی اشیاء کے ساتھ افغانستان جاتے تھے۔ اب صرف 250 سے 300 کنٹینرز ہی جاتے ہیں۔‘






