پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے افغانستان کے مسائل کیسے بڑھ رہے ہیں؟

12:4212/11/2025, بدھ
جنرل12/11/2025, بدھ
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کی معیشت شدید دباؤ میں ہے اور ہر 10 میں سے نو گھرانے بھوکے رہنے، اپنا ساز و سامان بیچنے اور قرض لے کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور ایران سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی واپسی سے بدترین معاشی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کی معیشت شدید دباؤ میں ہے اور ہر 10 میں سے نو گھرانے بھوکے رہنے، اپنا ساز و سامان بیچنے اور قرض لے کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اور ایران سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی وطن واپسی سے ملک میں جاری بدترین معاشی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام نے بدھ کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم ہر 10 میں سے ایک افغان شہری کو اس کے وطن واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 2023 سے اب تک 45 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا گیا ہے جس میں سے زیادہ تر ایران اور پاکستان سے واپس بھیجے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان پناہ گزینوں کی واپسی سے افغانستان کی آبادی میں 10 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں آنے والے زلزلوں، سیلابوں اور خشک سالی نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ آٹھ ہزار گھر تباہ ہو چکے ہیں جب کہ عوامی سہولتوں پر شدید دباؤ ہے۔

معاشی بحران، زلزلے، سیلاب اور بھوک

افغانستان کے 48 ہزار گھرانوں پر مشتمل ایک سروے میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ اپنے وطن واپس لوٹنے والے نصف سے زیادہ افغان شہری کھانے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوائیں نہیں لے پا رہے اور 45 فیصد کھلے تالابوں یا غیر محفوظ کنوؤں کے مضرِ صحت پانی پر گزارا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق واپس لوٹنے والے 90 فیصد افغان گھرانے قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اکثر گھرانوں پر ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک قرضہ ہے جو افغانستان میں موجودہ ماہانہ آمدنی سے پانچ گنا زیادہ ہے۔

جن علاقوں میں زیادہ پناہ گزین واپس آئے ہیں، وہاں ایک ٹیچر 70 سے 100 بچوں کو پڑھا رہا ہے۔ 30 فیصد بچے کام کرتے ہیں جب کہ واپس لوٹنے والے افغان شہریوں میں بے روزگاری کی شرح 95 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ افغانستان میں اوسطاً ماہانہ آمدن ساڑھے چھ ہزار افغانی ہے جب کہ مکانوں کے کرائے تین گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔ِ

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی فوری مدد نہ کی گئی تو غربت مزید بڑھے گی اور مزید لوگ ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔

خواتین پر سب سے زیادہ بوجھ

افغانستان کی لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت صرف چھ فیصد رہ گئی ہے جو دنیا میں سب سے کم شرحوں میں سے ایک ہے۔ نقل و حرکت پر پابندیوں کے باعث وہ خواتین جو گھر کی سربراہ ہیں، ان کے لیے روزگار، تعلیم یا صحت کی سہولتو تک رسائی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔

اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور ایشیا و بحرالکاہل کے لیے یو این ڈی پی کی ریجنل ڈائریکٹر کانی ویگناراجا نے کہا 'کچھ صوبوں میں ہر چار میں سے ایک گھر کا انحصار کسی خاتون پر ہے جو اس گھر کی بنیادی کفیل ہے۔ اس لیے جب خواتین کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو صرف وہ نہیں، بلکہ پورا خاندان، کمیونٹی اور ملک نقصان اٹھاتے ہیں۔'

جن گھرانوں کی کفالت کی ذمے داری خواتین پر ہے، وہ خوراک کی شدید قلت اور دوبارہ بے دخلی کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔

یو این ڈی پی نے طالبان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے مزید وسائل مختص کریں اور خواتین امدادی عملے پر عائد پابندیاں ختم کریں۔


##افغانستان
##افغان پناہ گزین
##معاشی مسائل