
گیارہ نومبر کو اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں کچہری کے قریب ’خودکش دھماکہ‘ ہوا تھا جس میں بارہ لوگ ہلاک اور تقریباً بیس زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان نے اس حملے کا الزام انڈیا اور افغانستان پر عائد کیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ اسلام آباد دھماکے میں ’انڈیا کی پشت پناہی میں سرگرم‘ گروہ ملوث ہیں۔ تاہم انڈیا نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اسلام آباد خودکش حملے میں کون سا گروہ ملوث ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک جماعت الاحرار نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم بی بی سی کے مطابق ٹی ٹی پی نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
دھماکہ کیسے ہوا؟
وزیر داخلہ کے مطابق یہ خودکش حملہ منگل کی دوپہر 12 بج کر 39 منٹ پر ہوا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خودکش حملہ آور کی شناخت افغان شہری کے طور پر کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق خود کش حملہ آور کچہری کے اندر داخل ہونے کے بعد دھماکہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اندر جانے نہیں دیا گیا۔
’خود کش حملہ آور نے پندرہ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد کچہری کے باہر کھڑی ایک پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا۔‘
اس موقع پر موجود ایک وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ کچہری کے باہر اپنی گاڑی پارک کر رہے تھے جب انہوں نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔
مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد متعدد انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے جس میں مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی شامل تھا۔
خودکش بمبار کون تھا؟
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق خودکش بمبار پاکستانی نہیں تھا، اسے پاکستانی کرنسی اور پاکستانی زبان کے بارے کچھ نہیں پتہ تھا۔
’ہمارے پاس تمام شواہد موجود ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کی حکومت نے افغانستان اور انڈیا کا نام لیا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد کچہری پر حملہ کرنے والا خودکش بمبار جب اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تو اُس نے شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے مختلف موٹر سائیکلوں پر رائیڈ لی اور دورانِ تفتیش پتہ چلا ہے کہ اُسے پاکستان کرنسی نوٹوں سے کرایہ ادا کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔
طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور وہ بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے کسی دوسرے ملک پر الزام عائد نہیں کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور افغانستان نے کہا تھا کہ اگر اب کوئی حملہ ہوا تو اسلام آباد کو نشانہ بنایا جائے گا۔
وزیر ممالکت برائے داخلہ نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے افغان طالبان نے دوحہ معاہدے میں یقین دہانی کروائی تھی لیکن اُس کی پاسداری نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق افغانستان نے کئی دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی خفیہ معاہدے کیے ہیں لیکن پاکستان سے اس طرح کے معاہدے کرنے میں کبھی کوئی دینی مسئلہ سامنے لے آتے ہیں۔






