
امریکہ کئی برسوں سے دوسروں کو خبردار کرتا آیا ہے کہ وہ چائنہ کے بینکوں سے قرضے نہ لیں۔ تاہم ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چائنیز قرضے امریکہ نے ہی لیے ہیں اور اس معاملے میں وہ دیگر ملکوں سے بہت آگے ہے۔
'چائنہ نے امریکہ میں 200 ارب ڈالرز سے زیادہ کے قرضے دیے'
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چائنہ کے قرض دینے والے سرکاری اداروں نے پچھلے 25 برسوں کے دوران امریکی کاروباروں کو 200 ارب ڈالرز سے زیادہ قرض دیا ہے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر قرضوں کو ایسے خفیہ رکھا گیا ہے کہ رقوم کو مختلف کمپنیوں سے گھما پھرا کر امریکہ لایا گیا تاکہ اس کے اصل ماخذ کو چھپایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ نے چائنہ سے سب سے زیادہ سرکاری شعبے کا قرض حاصل کیا۔ 200 ارب ڈالر سے زائد جو تقریباً 2,500 منصوبوں اور سرگرمیوں کے لیے تھا۔
ایڈ ڈیٹا نے کہا کہ چائنہ کے سرکاری ملکیتی ادارے امریکہ کے ہر کونے اور ہر شعبے میں سرگرم ہیں۔ وہ ٹیکساس اور لوئزیانا میں ایل این جی منصوبوں, ناردن ورجینیا میں ڈیٹا سینٹرز, نیویارک کے جے ایف کے ایئرپورٹ اور لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹرمینلز، میٹرہورن ایکسپریس نیچرل گیس پائپ لائن اور ڈکوٹا ایکسس آئل پائپ لائن کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ نے ہائی ٹیک کمپنیوں کی خریداری کے لیے بھی فنانسنگ کی ہے جب کہ چینی سرکاری بینکوں نے بہت سی فورچون 500 کمپنیوں جیسے ایمیزون، اے ٹی اینڈ ٹی، ویریزون، ٹیسلا، جنرل موٹرز، فورڈ، بوئنگ اور ڈزنی کو بھی قرض کی سہولیات فراہم کی ہیں۔

'چائنہ اب زیادہ تر امیر ملکوں کو قرض دیتا ہے'
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چائنہ کا قرض کا جال اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جتنا اس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا۔ پہلے یہ تصور بھی تھا کہ چائنہ ترقی پذیر ملکوں کو قرض دیتا ہے تاہم اب اس کے قرضے امیر ملکوں تک پھیل چکے ہیں جن میں برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیدرلینڈز اور امریکہ کے دیگر اتحادی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چائنہ نے جو بیرونِ ملک قرضے دیے ہیں، ان میں سے تین چوتھائی سے زیادہ اب درمیانی سے زیادہ آمدن والے ملکوں اور امیر ملکوں میں سرگرمیوں اور پروجیکٹس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مصنف اور ایڈ ڈیٹا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریڈ پارکس کہتے ہیں کہ امیر ملکوں کو دیے گئے زیادہ تر قرضے کلیدی انفراسٹرکچر، نایاب معدیان اور سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنیوں جیسی جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دیے گیے ہیں۔
چائنہ سن 2000 تک کم آمدنی والے ملکوں میں 88 فیصد قرضے دیتا تھا لیکن یہ شرح گر کر 2023 میں صرف 12 فیصد تک رہ گئی۔ بیجنگ نے جنوبی ملکوں کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے قرض دینے میں بھی کمی کی ہے۔
لیکن درمیانی اور زیادہ آمدن والے ملکوں کو قرض دینے کی شرح جو 2000 میں 24 فیصد تھی، وہ 2023 میں 76 فیصد تک جا پہنچی۔ برطانیہ کو چائنہ نے 60 ارب ڈالر کا قرض دیا ہے جب کہ یورپی یونین کو 161 ارب ڈالر قرض دے چکا ہے۔






