سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ خطے کی جغرافیائی سیاست کو کیسے بدل رہا ہے؟

12:1718/09/2025, جمعرات
جنرل18/09/2025, جمعرات
ویب ڈیسک
پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بدھ کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے شاندار استقبال کیا
تصویر : سوشل میڈیا / پی ٹی وی
پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بدھ کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے شاندار استقبال کیا

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی علی عہد محمد بن سلمان نے ’تاریخی معاہدے‘ کے بعد مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے ملتے تصاویر بنوائیں جس پر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے ’ایک ٹرننگ پوائنٹ‘ ثابت ہوگا۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بدھ کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے شاندار استقبال کیا، جہاں سعودی ایف-15 لڑاکا طیاروں کی سلامی، سرخ قالین اور مکمل شاہی پروٹوکول دیا گیا۔ اسی موقع پر دونوں رہنماؤں نے ایک ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے۔

مبصرین کے مطابق یہ پاکستان اور سعودی عرب کے دہائیوں پرانے اتحاد کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، جو تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تعلقات پر مبنی ہے۔



واشنگٹن ڈی سی کے اسٹسِم سنٹر کے سینئر فیلو اسفندیار میر نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ماضی میں سرد جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے تھے لیکن وہ 70 کی دہائی تک ناکام ہوگئے۔ چائنہ کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات کافی وسیع ہیں، مگر کوئی باضابطہ باہمی دفاعی معاہدہ موجود نہیں۔‘

یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کے ساؤتھ ایشیا سیکیورٹی ریسرچر محمد فیصل نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک ایسا نمونہ بن سکتا ہے، جس کے تحت وہ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ بھی ایسے دوطرفہ دفاعی تعاون کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

محمد فیصل نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو دفاعی تعاون پہلے سے جاری ہے وہ مزید مضبوط اور منظم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی تعاون بڑھانے کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے، مثلاً دونوں ملک مل کر فوجی مشقیں کریں گے، ہتھیار اور دفاعی سازوسامان تیار کریں گے اور ممکن ہے کہ سعودی عرب میں تعینات پاکستانی فوجیوں کی تعداد بھی بڑھا دی جائے۔‘


پاک سعودی عرب ملٹری کارپوریشن

سعودی عرب، 1947 میں آزادی کے فوراً بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا۔

1951 میں دونوں ملکوں نے ’ٹریٹی آف فرینڈشپ‘ پر دستخط کیے، جس نے اسٹریٹجک، سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد رکھی۔

کئی برسوں کے دوران پاکستانی فوج کئی مرتبہ سعودی عرب میں تعینات رہی اور سعودی اہلکاروں کو خلیج اور پاکستان دونوں جگہ تربیت فراہم کی۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان 1967 سے اب تک 8,000 سے زیادہ سعودی اہلکاروں کو تربیت دے چکا ہے۔ 1982 میں ہونے والے ایک معاہدے نے اس تعاون کو مزید مضبوط کیا، جس کے تحت پاکستانی فوجی اہلکار سعودی عرب میں تعینات ہوئے اور تربیت فراہم کرتے رہے۔

لیکن موجودہ دفاعی معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست تیزی سے بدل رہی ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر جنگ اور خطے کے دیگر ممالک پر حملوں نے خلیجی ریاستوں کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اب بھی اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کرتی ہیں، حالانکہ امریکا اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے۔

قطر، جس پر 9 ستمبر کو اسرائیل نے حملہ کیا کیونکہ وہاں حماس کے رہنما موجود تھے، امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کا اہم اڈہ بھی ہے۔

2025 کے وسط تک مشرقِ وسطیٰ میں ہزار ,000 سے 50 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ فوجی بڑے فوجی اڈوں اور کم از کم 19 چھوٹے اڈوں پر موجود ہیں، جن میں ریاض کے قریب پرنس سلطان ایئر بیس بھی شامل ہے۔



’یہ معاہدہ امریکہ میں تشویش کی لہر پیدا کرسکتا ہے‘

الجزیرہ کی رپورت کے مطابق سعودی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ کم از کم ایک سال سے تیاری کے مراحل میں تھا، لیکن واشنگٹن میں موجود آزاد سیکیورٹی تجزیہ کار سحر خان کے مطابق یہ معاہدہ امریکا میں تشویش کی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔

2021 سے 2025 کے دوران صدر جو بائیڈن کی حکومت نے پاکستان پر سات مرتبہ پابندیاں لگائیں۔ یہ پابندیاں اُن پاکستانی افراد اور کمپنیوں پر عائد کی گئیں جن پر بیلسٹک میزائل تیار کرنے کا الزام تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے عوامی سطح پر بھی یہ خدشات ظاہر کیے کہ پاکستان جو میزائل بنا رہا ہے ان کی رینج کتنی ہے اور کیا وہ ایٹمی ہتھیار امریکا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔




’یہ معاہدہ ایک امتحان بھی ہوگا کہ پاکستان اور سعودی عرب ان تعلقات کو کس طرح سنبھالتے ہیں‘

جون میں اسرائیل نے ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ چھیڑی، جس میں اس نے ایران کی ایٹمی تنصیبات اور اعلیٰ فوجی و سول رہنماؤں کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں امریکی بمبار طیاروں نے بھی اسرائیل کا ساتھ دیا اور فورڈو (ایران کی اہم ایٹمی سائٹ) پر بڑے بم گرائے۔

تین ماہ بعد اسرائیل نے دوحہ (قطر) کے ایک رہائشی علاقے میں ایک عمارت پر حملہ کیا، جہاں سفارتخانے، اسکول اور سپر مارکیٹیں موجود تھیں۔ اس حملے میں کم از کم پانچ حماس ارکان اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوا۔

دوحہ پر یہ حملہ عرب اور اسلامی ممالک کی ہنگامی اجلاس کا سبب بنا۔ اس کے بعد خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک – بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات – نے مشترکہ دفاعی نظام کو فعال کرنے کا اعلان کیا۔


محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس معاہدے کو حالیہ علاقائی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

ان کے بقول یہ واقعات خلیجی ریاستوں کے سکیورٹی خدشات میں اضافہ کرتے ہیں اور امریکہ کے سکیورٹی نظام پر اعتماد کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے خلیجی ممالک پاکستان، مصر اور ترکی جیسے خطے کے ممالک کو اتحادی سمجھتے ہیں۔

تاہم محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس معاہدے کے وقت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کا تعلق اسرائیل کے حالیہ قطر پر حملے سے ہے، لیکن اس نوعیت کے معاہدوں پر مذاکرات اور دستخط کرنے میں مہینوں یا برسوں لگ جاتے ہیں۔

دوسری جانب واشنگٹن ڈی سی کے اسٹِمسن سینٹر کے سینئر فیلو اسفندیار میر کے مطابق یہ معاہدہ ایک امتحان بھی ہوگا کہ پاکستان اور سعودی عرب ان تعلقات کو کس طرح سنبھالتے ہیں جو انہوں نے دیگر ممالک کے ساتھ بڑی احتیاط سے قائم کر رکھے ہیں اور بعض کے ساتھ تو دوستانہ تعلقات بھی موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب پاکستان نے خود کو اُن مسائل میں بھی شامل کرلیا ہے جن میں سعودی عرب کے علاقائی تنازعات، خاص طور پر اس کے ہمسایہ ایران کے ساتھ، شامل ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب نے بھی خود کو پاکستان کے تنازعات میں شامل کرلیا، خاص طور پر انڈیا کے ساتھ اور ممکنہ طور پر طالبان کی زیر قیادت افغانستان کے ساتھ بھی۔‘


یہ بھی پڑھیں:




#سعودی عرب
#پاکستان
#مشرق وسطیٰ