
افغانستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا جس میں انہوں نے امریکی فوج کو دوبارہ ملک میں تعینات کرنے اور بگرام ایئربیس واپس لینے کا کہا تھا۔
افغان وزارتِ خارجہ کے ایک عہدیدار نے جمعے کو سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ کابل امریکہ کے ساتھ رابطے بڑھانے کے لیے تیار ہے، تاہم افغانستان میں کسی بھی صورت امریکی فوجی موجودگی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ نے جمعرات کو کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ بگرام ایئربیس کو واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ فضائی اڈہ جغرافیائی طور پر نہایت اہم ہے کیونکہ یہ چائنہ کے قریب واقع ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کررہے ہیں، ہم نے یہ (طالبان کو) مفت میں دیا۔ یہ جگہ بالکل ایک گھنٹے کی دوری پر ہے جہاں چائنہ اپنے ایٹمی میزائل تیار کرتا ہے۔
تاہم طالبان حکام نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔ وزارتِ خارجہ کے عہدیدار ذاکر جلال نے کہا کہ ’افغانستان کے کسی بھی حصے میں امریکی فوجی کی موجودگی کے بغیر افغان حکومت امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابل واشنگٹن کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے، شرط یہ ہے کہ تعلقات باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہوں۔
بگرام ایئربیس اتنا اہم کیوں ہے؟
بگرام اڈہ کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے بیس سال میں تین امریکی صدور، جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ، اس کا دورہ کر چکے ہیں۔ جو بائیڈن بھی 2011 میں یہاں آئے تھے لیکن اس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے۔
یہ فوجی اڈہ سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں بنایا تھا۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران یہ سوویت افواج کا اہم مرکز رہا۔
کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئربیس امریکی افواج کے بیس سالہ قبضے کے دوران ان کی سب سے بڑی فوجی تنصیب رہی۔ یہ جگہ ایک بدنام زمانہ جیل کا مرکز بھی تھی جہاں ہزاروں افراد کو بغیر فردِ جرم برسوں قید رکھا گیا اور بہت سے قیدیوں کو بدسلوکی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ کے انخلا اور افغان حکومت کے خاتمے کے بعد 2021 میں طالبان نے اس اڈے پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
ٹرمپ کئی بار اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ نے بگرام چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں چھوٹی سی فوجی موجودگی برقرار رکھنی چاہیے تھی، افغانستان کے لیے نہیں بلکہ چائنہ کے قریب ہونے کی وجہ سے۔
تازہ ترین بیان میں ٹرمپ نے پہلی بار تصدیق کی کہ ان کی انتظامیہ طالبان حکام سے بات چیت کر رہی ہے۔ حال ہی میں ان کے خصوصی سفیر ایڈم بویلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں افغانستان میں قید امریکی شہریوں کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں حکام مارچ سے ہی بگرام میں دوبارہ موجودگی کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کا خیال ہے کہ یہ فضائی اڈہ نہ صرف سکیورٹی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ افغانستان کے قیمتی معدنی وسائل تک رسائی کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
امریکہ باضابطہ طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا، جو 2021 میں امریکی قیادت میں 20 سالہ جنگ کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئی۔