
پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔
میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت خان نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں سیاحوں پر حملے اور جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ہلاک ہونے والے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ 22 اپریل کی شام مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 26 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ علاقہ مشہور خوبصورت سیاحتی مقام ہے، جہاں ہر سال گرمیوں میں ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہاں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
پہلگام سری نگر سے سڑک کے ذریعے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے جہاں کئی بھارتی فلموں کی شوٹنگ بھی کی جاچکی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے، جو کہ سال 2000 کے بعد سے اس علاقے میں عام شہریوں پر ہونے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ ہے۔
روزنامہ ’دی ہندو‘ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک نیوی آفیسر اور غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے۔
ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا: مودی کی مذمت
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے پہلگام میں ہونے والے اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حملہ کرنے والوں کو سزا ضرور دی جائے گی۔
یہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں ہوئیں جب مودی نے ایک روز قبل نئی دہلی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی، جو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ انڈیا کے چار روزہ دورے پر ہیں۔
ہلاک ہونے والے بعض افراد کا تعلق انڈیا کے دور دراز علاقوں سے تھا، جن میں تامل ناڈو، مہاراشٹرا اور کرناٹک شامل ہیں۔
حملے کی ذمہ داری کس نے قبول کی؟
بی بی سی کے مطابق یہ گروپ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا اور مبینہ طور پر ایک سرگرم عسکریت پسند نیٹ ورک میں تبدیل ہونے سے پہلے انڈیا کے خلاف آن لائن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا۔ انڈین حکومت نے سنہ 2023 میں اسے ایک دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا اور اس پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، دہشت گردی کے مواد کو آن لائن پھیلانے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی سمگلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ سال 2000 میں اُس وقت پیش آیا تھا جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ دہلی سے قبل 36 بھارتی شہری مارے گئے تھے۔ تاہم اس واقعے کے حوالے سے بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں کہ اصل حملہ آور کون تھے۔
اس وقت بھارت نے پاکستان میں موجود جنگجوؤں پر الزام عائد کیا تھا، لیکن بھارتی اور کشمیری مبصرین نے اسے بھارتی فوج کی ایک مبینہ سازش قرار دیا تھا۔
حالیہ حملے کے بعد کئی بھارتی میڈیا ادارے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بغیر کسی ثبوت کے اس واقعے کو پاکستان سے جوڑنا شروع کر دیا۔
بھارتی ٹی وی چینلز پر تبصرہ نگاروں نے پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دی، تاہم حملے کے فوری بعد انڈیا کی جانب سے سرکاری سطح پر پاکستان پر براہ راست الزام نہیں لگایا گیا۔
عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
پہلگام میں خبر رساں ادارے اے ایف پی اور روئٹرز نے وہاں موجود لوگوں سے بات کی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر احوال بتایا۔ ایک ٹور گائیڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ فائرنگ کی آواز سن کر موقع پر پہنچے اور کچھ زخمیوں کو گھوڑے پر اٹھا کر وہاں سے لے گئے۔ ایک اور شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے کئی لاشیں زمین پر پڑی دیکھی۔
سیاحوں کو گھوڑے فراہم کرنے والے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اُن کی درست تعداد کا اندازہ نہیں مگر حملہ آور گھاس کے میدان کے قریب والے جنگل سے اچانک باہر آئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہ لوگ خواتین کو چھوڑ رہے تھے اور مردوں پر گولی چلا رہے تھے۔‘
ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ غیر ملکی سیاحوں کا بھی ان افراد میں شامل ہونا ممکن ہے جو فائرنگ کا نشانہ بنے، لیکن اس کی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔
ایک اور عینی شاہد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’ایک طوفان سا تھا۔ کبھی وہ ایک گولی چلاتے اور کبھی ایک ساتھ کئی گولیاں چلا دیتے۔‘
ایک مارکیٹنگ کمپنی میں کام کرنے والی خاتون نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ ’میرے شوہر نے میرے سامنے جان دے دی اور میں کچھ نہ کر سکی۔ میرے بیٹے اور میں نے حملہ آوروں کی مِنّت کی کہ انہیں نہ مارو۔ لیکن وہ نہیں مانے۔‘
عالمی سطح پر مذمتیں
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں تعزیت کا اظہار کیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِاعظم مودی کو فون کرکے واقعے کی مذمت کی اور حملے کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے انڈیا کو سپورٹ کرنے کا وعدہ کیا۔
مودی نے اس حملے کے بعد سعودی عرب کے لیے اپنا سرکاری دورہ مختصر کر دیا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی پہلگام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دہشت گردوں کو اُن کے جرم کی سزا ملے گی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے ایکس پر کہا کہ ’میرے عزیز دوست نریندر مودی مجھے جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشتگرد حملے پر گہرا دکھ ہے، جس میں درجنوں معصوم افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل دہشتگردی کے خلاف انڈیا کی جنگ میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
سری لنکا نے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ حکومت نے متاثرہ خاندانوں سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔ سری لنکا نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے بھی مذمت کی ہے۔ ایکس پر جاری بیان میں انہوں نے متاثرین، ان کے خاندانوں اور بھارتی عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ اس مشکل وقت میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔