
اسرائیل کی جانب سے واپس کیے گئے 100 سے زائد فلسطینیوں میں سے زیادہ تر لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔
ان کے کفن پر ناموں کے بجائے نمبر لکھا تھا، یہی نہیں بلکہ لاشیں اتنی بُری حالت میں تھیں کہ انہیں اہل خانہ کی جانب سے پہنچاننا ناممکن لگ رہا تھا۔
ان لاشوں پر موجود نشانات اور بعض لاشوں میں آنکھوں پر پٹی اور ہتکڑیاں بندھی تھیں، ان کے موت سے پہلے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مبینہ طور پر کچھ کو پھانسی دی گئی۔
اس تشدد کی تصدیق فلسطینی قیدیوں نے کی ہے جو غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت زندہ رہ کر اسرائیل سے آزاد ہوئے، جس کے تحت اسرائیل سے بھی کچھ قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
سالوں سے یہ رپورٹس عام ہیں کہ اسرائیل اپنی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد یہ واقعات بڑھ گئے ہیں، جبکہ بعض اسرائیلی سیاستدان اس کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے کم از کم 75 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایک خاص قابل ذکر واقعہ گزشتہ سال اسرائیل کی بدنام زمانہ سڈے تئمان نامی جیل میں پیش آیا، جہاں ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔ تصدیق شدہ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ اسرائیلی جیل کے گارڈز کیمرا سے چھپنے کے لیے اپنے شیلڈ استعمال کر رہے ہیں، پھر قیدی کے ساتھ ریپ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں متاثرہ قیدی چلنے سے قاصر ہو گیا۔

لاشوں پر تشدد کے آثار
اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی فلسطینی لاشوں کی حالت خوفناک ہے۔
فورنسک ٹیموں نے ان لاشوں کا معائنہ کیا، انہیں جسمانی تشدد کے آثار نظر آئے۔ غزہ کی فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق کچھ لاشوں کے اعضا یا دانت غائب تھے، جبکہ بعض پر جلن کے نشان بھی موجود تھے۔
وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ "ایسے جرائم چھپائے نہیں جا سکتے، غزہ کے قیدیوں کی لاشیں یوں واپس آئیں: آنکھوں پر پٹیاں، جانوروں کی طرح باندھے ہوئے اور شدید تشدد اور جلنے کے آثار کے ساتھ۔‘
’ان کی قدرتی موت نہیں ہوئی، انہیں باندھے جانے کے دوران قتل کیا گیا، یہ ایک جنگی جرم ہے جس کے لیے فوری بین الاقوامی تحقیقات اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے۔‘ لاشوں کی تصاویر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ان پر تشدد کے آثار موجود ہیں۔

غزہ کے ناصر ہسپتال میں لاشیں وصول کرنے والی کمیٹی کے رکن سامی حمد نے بتایا کہ ایک لاش کے گرد رسی بندھی ہوئی تھی۔
فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی کے رائد محمد عامر نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کی تنظیم نے معلوم کیا کہ اسرائیل نے درجنوں فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔
ڈاکٹر ناجی عباس، جو اسرائیل میں ہیومن رائٹس کے لیے ڈاکٹروں کے ادارے کے قیدیوں اور حراست میں موجود افراد کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ لاشوں کی حالت دیکھ کر وہ ’حیران نہیں‘ ہیں۔
’ہم نے اسرائیلی جیل کے نظام میں سینکڑوں تشدد اور اموات کے واقعات ریکارڈ کیے ہیں، درجنوں فلسطینی مارے گئے، مار مار کر ہلاک کیے گئے، یا مہینوں علاج سے محروم رہنے کے بعد ہلاک ہوئے۔‘
ان کے مطابق ایک پوسٹ مارٹم میں آٹھ ماہ بعد بھی جسم پر تشدد کے آثار دیکھے گئے۔
’یہ دستاویزی کیسز ہیں جہاں قیدیوں کی لاشوں پر واضح تشدد اور موت سے پہلے ظلم و بربریت کے آثار موجود ہیں، لیکن کسی ٹی وی یا اخبار نے اسے رپورٹ نہیں کیا۔‘
الجزیرہ نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) سے رابطہ کیا، جو فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی منتقلی کی نگرانی کرتی ہے، لیکن انہوں نے لاشوں کی حالت پر تبصرہ نہیں کیا اور کہا کہ ان کا عملہ وفات پانے والوں کی لاشوں کی عزت کے ساتھ منتقلی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اسرائیلی فوج اور جیل سروس نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔











